Monday, 31 December 2012

PPP Chairman Bilawal Bhutto Zardari's speech of Dec 27,2012


سم اللہ الرحمن الرحیم
نعرہ تکبیر ۔۔۔ نعرہ رسالت ۔۔۔نعرہ حیدری
میر ے ساتھیو ۔۔۔میرے بھائیوں ۔۔۔میری بہنوں اورمیرے بزرگوں
اسلام وعلیکم۔۔۔
جئے بھٹو۔۔۔ جئے بے نظیر۔۔۔
میں آج گڑھی خدا بخش کی اس مقد س سرزمین پر شہیدو ں کے درمیان ہوں ۔میرے ساتھ میر ے نانا قائد عوام شہید ذولفقار علی بھٹو بھی ہیں اور میری ماں شہید بی بی بھی ۔۔۔ میرے ساتھ وہ ہزاروں شہید بھی ہیں جو قائد عوام کی آواز پر جمہوریت کی جنگ میں شہید ہو گئے وہ ہمارے ساتھ ہیں ۔وہ ہمارے دلوں میں زندہ ہیں ۔ ہمارے آنکھوں میں زندہ ہیں ۔ہمارے جذبوں میں زندہ ہیں اور ہمیشہ زندہ رہینگے ۔ 
مگر ساتھیوں یہ شہادتیں کیوں؟ امن وامان کے سفیروں سے دشمنی کیوں؟ جمہوریت کے چاہنے والوں کا قتل کس لئے؟
بات یہ ہے کہ اس ملک میں صرف دو طاقتیں ہیں۔ ایک آپ ہیں۔ جو پہلے دن سے حق اور سچ کے راستے پر چل رہے ہیں۔ اور ایک وہ ہیں جن کی فطرت میں جھوٹ کے سواء کچھ بھی نہیں ۔ جنہیں صرف آمریت کا راستہ پسند ہے۔ ایک آپ ہیں جو عوام کی زندگی کے لیے اپنی جان قربان کر دیتے ہیں۔ اور ایک وہ ہیں جو اپنی زندگی کے لیے عوام سے جینے کا حق بھی چھین لیتے ہیں ۔ میں آج گڑھی خدا بخش کوگواہ بنا کر ان سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ کہاں تک جاؤ گے۔
آپ جو قائد عوام جیسے سورج کو غروب کرکے سمجھتے تھے کہ یہ راہ امر ہوجائے گی میں آپ سے پوچھتا ہوں آپ جو شہید بی بی جیسی مشعل بجھاکر خوش تھے کہ آپ اب اندھیرے کبھی ختم نہیں گے۔ میں آپ سے پو چھتا ہوں آپ جو شہید بلور جیسا چراغ بجھا کر سمجھتے تھے کہ تم ہمیں گھروں میں قید کر دوگے۔ میں آپ سے پوچھتا ہوں آپ جو ملالہ جیسی شمع جھلنے سے اتنا خوف کھاتے ہوں کہ اسے بھی ختم کرنے چل دیئے۔ میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ آپ کہاں تک جاؤ گے ۔ یاد رکھنا ہم قائد عوام کے دیوانے ہیں۔ ہم بھٹوکے پروانے ہیں اگر آپ ایک بھٹو مارو گے تو ہر گھر سے بھٹو نکلے گا۔ آپ ایک چراغ بجھاؤ گے تو لاکھوں روشنیاں نظر آئے گی ۔ ایک بلور شہید ہوگا تو ہزاروں بلور سامنے آئینگے ۔ایک مشعل بجھاؤں گے تو لاکھوں شمعیں جلیں گی۔ ایک ملالہ پر حملہ ہوگا تو ہزاروں ملالہ پیدا ہوگی۔ ایک بی بی شہید ہوگی تو ہر عورت بے نظیر بھٹو بنے گی۔
بھٹو ایک نام نہیں، ایک جنون ہے۔۔ایک جذبہ ہے۔۔ ایک عشق ہے۔۔ 
یہ بازی خون کی بازی ہے 
یہ بازی تم ہی ہارو گے
ہر گھر سے بھٹو نکلے گا تم کتنے بھٹو ماروگے۔
میرے ساتھیو! ہم نے بہت مشکل راستہ کیا ہے۔ ہمارا راستہ جمہوریت کا راستہ ہے۔ اس راستے میں آنسو بھی ہے۔ آہیں بھی ہیں۔ کانٹے بھی اور پتھر بھی ہے۔ اور یہی وہ راستہ ہے جس پر ہماری شہید بی بی نے چلنا سکھایا ۔ قتل گاہ سے علم اٹھاکر چلنے والی بیٹی آگ اور خون کے دریاؤں سے گزر گئے مگر اس نے عوام کا پرچم گرنے نہیں دیا۔ اور ہمیں یہ پیغام دے گئی کہ یہی پیپلز پارٹی کا راستہ جھوٹ سے جنگ کا راستہ ہے۔ اور اس راستے پر سر جھکا کر نہیں حسین کی طرح سر کٹا کر جیسا جانا ہے۔ 
یہ قدم قدم بلائے کہ سوار جانا
وہ یہیں سے لوٹ جائے جنہیں زندگی ہر پیاری 
ساتھیو! آج جمہوریت کے سائے میں بیٹھنے والے یا د رکھے یہ جمہوریت ہم لے کر آئے ہیں اور اس کی حفاظت بھی ہم ہی کرینگے ۔ آج پارلیمنٹ اپنے فیصلوں میں آزاد ہے۔ صوبے خود مختار ہیں۔ طاقت کا مرکز ایک انسان نہیں بلکہ عوام ہے۔ 1973کا آئین قائد عوام کا آئین ، بے نظیر بھٹو شہید کا خواب۔۔۔ جو ہم اپنی پہلے دور حکومت میں پورا نہ کرسکے آج اپنی اصلی صورت میں بحال ہو چکا ہے۔
آج صدر پاکستان کی قیادت میں ہم اسی راستے پر چل کر اس منزل تک جائینگے۔ جہاں ایک روشن پاکستان ہمارا انتظار کررہا ہے۔ دوستوں شہید بی بی کا خواب تھا کہ پاکستان کی عورت کا وہی مقام ہو جو پوری دنیاکی عورت کو حاصل ہے۔ آپ کے دور حکومت میں عورت کو ان کے گھروں میں مالی امداد دے کر ہم نے ایک صحت مند ان کے نئی بنیاد رکھی دی۔ جس میں کوئی عورت اپنی حقوق سے محروم نہیں ہوگی۔ Domestic abusiveسے لیکرPropertive disputeتک ، ہم نے اس حکومت میں ایسے قانون پاس کیے ہیں جو عورت کو مکمل تحفظ کرتے ہیں ۔ اور یہ سلسلہ جاری رکھینگے ۔
میرے ساتھیو! روٹی کپڑا اور مکان کل بھی ہمارا نعرہ تھا اور آج بھی ہمارا نعرہ ہے۔ یہ انسا ن کی ضرورت ہے اور یہ ضرورت کسی وسیلے کے بغیر پوری نہیں ہوسکتی اور آ ج ہم فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ آپ کی ضرورت آپ کی حکومت میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی صورت میں پورا کرنا شروع کردی ہے۔ ہمارے غریب پیسے سے محروم تھے ہم نے ان کے لئے وسیلہ حق شروع کیا۔ نوجوان کام سیکھنا چاہتے تھے مگر کوئی سیکھانے والا نہ تھا ۔ ہم نے وسیلہ روزگار کا آغاز کیا۔ صحت مند رہنا ہر شہری کا حق ہے۔ ہم نے وسیلہ صحت کا پروگرام دیا۔ ہمارے بچے جو اس قوم کا مستقبل ہے۔ ان کے پاس تعلیم نہیں تھی ہم نے وسیلہ تعلیم کا آغازکیا ۔ یہ تو شروعات ہے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے اور یہ مشن اس وقت پورا ہوگا۔ جب ہمارے پاکستان کا ہرنوجوان نوکری پیشہ ہوگا۔ جب ہمارے ملک کا ہر بچہ تعلیم یافتہ ہوگا۔ جب انسان صحت مند ہوگا۔ اور جب میر ے پاکستان میں ہر پاکستانی کے پاس روٹی کپڑا اور مکان ہوگا تب تک یہ جنگ جاری رہیگی۔یہی جمہوریت ہے اور وہ بہترین انتقام ہے جس کا راستہ شہید بی بی نے دیکھایا تھا ۔
ساتھیو! پیپلز پارٹی نے اپنے دور حکومت میں بہترین Ecomony Policies دی۔ بد قسمتی سے یہ دور Global Recessionکا دور تھا۔ امریکہ اور یورپ بھی اسکے سامنے بے بس نظر آتے تھے ۔دنیا کے بہترین بینک بند ہوگئے لیکن ہمارے ایک بھی بینک کو امداد کی ضرورت نہیں پڑی اور پاکستان میں ہماری Economy Policies کی وجہ سے ہماری Economyدہشت گردی کے باوجود آج بھی اپنے پیروں پر کھڑی ہے۔ 
ہماری ایکسپورٹ اس سال 25بلین ڈالر سے زیادہ ہوچکی ہے۔ جب ہم حکومت میں آئے تھے تو پاکستان دوسرے ممالک سے گندم خریدنے پر مجبور تھا۔ آج ہم دنیا کو گندم دے رہے ہیں Inflation 25% تھی۔ جو آج صرف 9% ہے۔
Remittance چودہ ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ کراچی اسٹاک ایکسچنچ 16000 ہزار پوئنٹ سے چلی گئی ہے۔ ہم نے یہ سب کچھ کیا ہے۔ لیکن بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ہمارے سامنے مشکلات کے پہاڑ ہیں ۔ 
دہشت گردی اور سیلاب نے ہمیں بہت نقصان دیا ہے۔ ان حالات میں ملک سے محبت رکھنے والے ہر انسان کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ منفی سوچ ہمیں تباہی کی طرف لے جائیں گی۔Positive Thinking آج پاکستان کے لئے بہت ضروری ہے۔ہمارا منشور ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہے اور ہم نے عوام کی امانت عوام کو واپس کردی ہے۔ طاقت ہے تو عوام کی ہے۔ ریاست ہے تو عوام کی ہے۔ اور عوام کی اس طاقت کے سامنے کوئی نہیں روک سکتا ۔ابھی وہ ہی ہوگا جو عوام چائیں گے۔ جو آپ چاہیں گے۔
پاکستان جن مسائلوں سے گزر رہا ہے وہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔ بلوچستان میں لگنے والی آگ سے ہم غافل نہیں۔ ہم نے اس صورتحال پر قابو پانے کے لیے تاریخی اقدامات کئے ہیں۔ بلوچستان ہمارے جسم کا حصہ ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ مشرف نے بلوچستان کی عوام کے ساتھ دوشمنوں و الا سلوک کیا۔ ہم نے بلوچستان کے حقو ق کا آغاز ریاست کی طرف سے معافی مانگ کرکیااور یہ روکے گا نہیں ۔ ہم نے قانون پاس کیا۔ جس کا مقصد یہ ہے کہ بلوچستان کے وسائل سے اب صرف فیڈریشن کو فائدہ نہیں ہوگابلکہ صوبے کے عوام اپنے وسائل سے خود فائدہ اٹھائینگے ۔
بلوچستان کے مسائل ایسا نہیں کہ ایک دم حل ہوجائیں ۔ ہم نے مستقبل کے لیے ایسا راستہ لیا ہے کہ انشااللہ بلوچ ایک Peacfullسوسائٹی میں رہینگے ۔ میر ے نانا شہید ذولفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی میری ماں محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کو سر عام قتل کردیا گیا میر ے ہزاروں ورکرز کی جان لے لی گئی مگر ہم نے پاکستان کو نہیں چھوڑا ہم پاکستان کو کبھی نہیں چھوڑینگے ۔ میں اپنے بلوچ بھائیوں سے یہ کہتا ہوں کہ میرے پاکستان کو۔۔۔
قائد کے پاکستان کو۔۔۔
بی بی کے پاکستان کو۔۔۔
اپنے پاکستان کو۔۔ ۔ان ظالموں کے ہاتھ میں مت چھوڑنا۔
یہ آپ کا پاکستان ہے۔۔۔
یہ میرا پاکستان ہے ۔۔۔
یہ ہمارا پاکستان ہے۔
ساتھیو! آج ہم ایسی جگہ پر ہیں جہا ں ہمیں مستقبل کے راستے کا انتخاب کرنا ہے۔ ایک طرف ہم ہیں جو دہشت گردی کے سامنے سب سے بڑی دیوار ہیں۔ اور دوسری طرف وہ ہے جو دہشت گردوں کا نام لینے سے بھی ڈرتے ہیں ۔ ایک طرف ہم ہیں جنہوں نے اپنی سیاست کو انصاف پر قربان کردیا۔ دوسری طرف وہ ہیں ۔جنہوں نے انصاف کو سیاست پر قربان پر دیا۔
ساتھیو! ہم نے ہمیشہ عدلیہ کو آزادی اور خود مختاری دی ہے۔ ہم نے عدلیہ کے ہر فیصلے کو تسلیم کیا۔ میں آج اس ملک کے سب سے بڑے قاضی سے سوال کرتا ہوں کہ آپ کو تو سب کچھ پتہ ہے مگر پھر بھی آپ کو رات کی تاریخیں میں اُٹھنے والا قائدعوام کا جنازہ کیوں نظر نہییں آتا ۔ پیپلز پارٹی کا ہر ایک ورکر بھٹو ریفرنس کے فیصلے کا انتظار کر رہا ہے۔ میری رگوں میں بھٹو کا خون ہے۔ میں آپ سے پوچھتا ہوں ۔آپ کو بھٹو شہید کے ریفرنس سننے کا وقت نہیں۔مگر پکوڑے کی قیمت ، سموسے کی قیمت ، چینی کی قیمت ، سی این جی کی قیمت میڈیا پر اپنے خلاف بیانات پر بندش ، کالا باغ بنانے اور میرے ہی لاڑکانہ کی بجلی بند کرنے کا وقت کیسے ہے؟ آج لاکھوں عوام میری ہی طرح اپنے پیاروں کے کیسز کے فیصلوں کا انتظار کررہی ہے۔ آپ کا کام انصاف دینا ہے یا حکومت کرنا؟ ۔ آپ جو چہروں کی پہچان کا دعوہ کرتے ہوں۔ آپ کو راولپنڈی کی سڑکوں پر بے نظیر بھٹو شہید کے خون کی سرخی کیوں نظر نہیں آتی؟
آپ جو اس ملک کے ایک ایک فرد کو انصاف دینے کے ذمہ دار ہو آپ کے کانوں تک پیپلز پارٹی کے ان ہزاروں ورکرز کی آواز کیوں نہیں جاتی ۔ آپ منصب ہو تو انصاف کرو ۔اور یاد رکھنا صبر کے پیمانے بھر چکے ہیں۔ رگوں میں خون کھل رہا ہے۔ مگر ہم خاموش ہیں۔ ہم اس لئے خاموش ہیں ہم نظام قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ ہم اس ملک کے ہر شہری کوسستا اور فوری انصاف دینا چاہتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ جس سوسائٹی میں انصااف نہیں ہوتا وہ سوسائٹی قانون کا احترام کرنا چھوڑ دیتی ہے۔ وہاں طالبان جیسی غیر جمہوری طاقتیں راج کرتی ہے۔ اور انتقام کی آگ ایسے جھالا دیتی ہے۔ آپ میر ے ملک کے قاضی ہو، اس ملک کی رانی ،اس ملک کی بیٹی ،اس ملک کی شان، اس ملک کی آن، اس ملک کی پہچان، ہماری شہید بی بی ان سڑکوں پر ہم سے چھین لی گئی تھی۔ JITاپنی رپورٹ دے چکی ہے۔ UNITED NATIONکی رپورٹ آچکی ہے۔ میں پوچھتا ہوں اب کس چیز کا انتظار ہے؟۔ میں شہید ذولفقار علی بھٹو کا وارث، میں شہید بے نظیر بھٹو کا بیٹا ۔۔آپ سے پوچھتا ہوں میر ے ماں کے قاتل جو گرفتار ہیں انہیں سزا کیوں نہیں دیتے؟۔ آ پ کے پاس میری ماں کے قاتلوں کو سزا دینا کا وقت نہیں ہیں۔ مگر ان کی قبر کا ٹرائل کرنے کا وقت کیسے ہے؟۔
ساتھیو! بات راستے کی ہو رہی تھی۔ ایک طرف ہمار ا راستہ ہے۔ جو مساوات اور برابری کا راستہ ہے۔ اس لئے ہمارے نظر میں ہر مذہب ، ہر طبقے ، ہر زبان ہرذات اور ہر صوبے کا مقام برابر ہے۔ ہم نے تاریخ میں پہلی بارصوبوں کو مرکز سے زیادہ حقوق دیا ہے۔ ایک راستہ ہمارا ہے اور دوسرا راستہ ان لوگوں کا ہے جن کی نظر میں پاکستان صرف جی ٹی روڑ پر بستہ ہے اور انسان صرف ادھر ہی رہتے ہیں۔
میرے ساتھیو! جان دینا آسان نہیں ہوتا۔ ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے قدم قدم پر شہادتیں دی ہیں اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو ہمارے شہیدوں کی تو ہین کرتے ہیں اور اس لئے کرتے ہیں کہ کوئی ان کی بزدلی کا راستہ نہ جان لے۔ کوئی ان کے بھاگ جانے پر سوال نہ پوچھ لے۔ کوئی یہ نہ پوچھ لیں جس ورکرنے آپ کو زمین سے اٹھاکر آسمان پر پہنچا وہ آپ نے اس کے لیے کتنی قربانیاں دی ۔ ہم تو اس ملک کی ہر پارٹی کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں۔ Reconciliationہمارا سب بڑا ہتھیار ہے۔ ہم مل کر اتحاد کی طاقت سے اس ملک کی تعمیر کرناچاہتے ہیں۔ مگر کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کے لبوں پر بے ہودہ الفاظ ہیں۔ ان کی سیاست صرف نفرت کی سیاست ہے۔ اور وہ سمجھتے ہیں کہ نفرت کی آگ میں اس وطن کوجلا کر وہ اقتدار کی منزل تک پہنچ جائینگے ۔مگر انہیں معلوم نہیں کہ سیاست نفرتوں کا نہیں محبتوں کا نام ہے۔ یہاں مخالیفوں سے بھی ہاتھ ملانا پڑتاہے۔ ہم انہیں پھر دعوت دیتے ہیں کہ آؤ ہم محبت کے سفیر ہیں۔۔۔ آؤ ہمارے ساتھ چلو۔ ۔۔
ہم ہواؤں رخ بدلینگے ۔
ساتھیو!یاد کرو جب صدر پاکستان جناب آصف علی زرداری نے پارٹی کے کو چیئر پرسن بن کر اپنے پہلے جلسے میں کہا تھا کہ وہ نظام بدلنا چاہتے ہیں ۔آج ان کے الفاظ حقیقت بن رہے ہیں۔ نظام بدل رہا ہے۔ پرانے برج الجھ رہے ہیں۔ تخت گرائے جارہے ہیں ۔ تاج اچھالے جارہے ہیں۔اس لئے تو اتنا اپوزیشن ہیں۔ اس لئے تو اتنا شور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آمریت کی پیداوار ڈکٹیٹروں کی گود میں پالنے والے ہمارے مخالف بن چکے ہیں۔
جن پتھروں کو ہم نے زبان دی 
آج وہ م یہ برستے ہیں
آج وہ ہم پر یہ برستے لگاتے ہیں۔آج وہ ہم پر الزام لگاتے ہیں۔ میں پوچھنا چاہتاہوں جمہوریت کے ان دعوے داروں سے کہ آپ کو ایوان صدر میں بیٹھنے والے جنرل ضیاء کی وردی تو نظر نہیں آئی۔ جنرل مشرف کی وردی تو نظر نہیں آئی ۔ مگر جب ایکCivilian President ، ایک جمہوری صدر، ایک عوامی صدر، ایوان صدر میں عوام کا نمائندہ بنا تو اس کی پیپلز پارٹی کاجھنڈا پانچ سال کے بعد ایسا کیوں نظر آیاکہ آپ کی راتوں کی نیند بھی اڑگئی ۔ یہ وہ ہی جمہوریت کے د عوے دار ہیں جو ایجنسیوں کی مدد سے بی بی شہید کا راستہ روکنا چاہتے تھے کہ آج ا صغر خان کیس کے بعد وہ کہا ں ہیں۔ پہلے و ہ ڈکٹیٹر کی مد د سے ہمیں وہ روکتے تھے۔ پھر ا نہوں نے 582bکا سہارا لیا۔ اور کبھی ایجنسیز کو ہمارے خلاف استعمال کیا گیا۔مگر افسوس آج بھی انہوں نے سبق نہیں سیکھااور اس دفعہ انہوں نے نئے کھلاڑی ایجاد کردیئے ہیں۔ آج بھی وہ جمہوریت کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ کبھی وہ میمو گیٹ کا سہارا لیتے ہیں۔ کبھی وہ ہمارے ہیINSTITUTIONS کو ہمارے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ 
آج بھی وہ ایک پھرجمہوریت کو تبا ہ کرنے پر تلے ہیں۔ مگر ہم اب یہ نہیں ہونے دینگے ۔ انہیں بتا دو کہ یہ قافلہ نہیں روکے گا ۔ آپ ہمارے پیروں میں زنجیرڈال دوگے مگر ہم اپنی منزل پر پہنچے نگے۔ آپ ہمارے ہاتھ کاٹ دوگے مگر ہمارا پرچم بلند رہے گا ۔ آپ ہمارے لب سی دو گے مگر جئے بھٹوکے نعرہ کبھی ختم نہیں ہونگے۔ میری رگوں میں بے نظیر بھٹوکا خون ہے۔ میں آج شہید بی بی کو گواہ بنا کر آپ سے عدہ کرتا ہوں کہ پیپلز پارٹی کبھی کسی ڈکٹیٹرکو عوام کا حق چھینے نہیں دے گی ۔ میری پیپلز پارٹی کبھی کسی دہشت گرد سے خوف ذدہ نہیں ہوگی۔ 
یا د کرو جب صدر پاکستان کی پہلی تقریر کے وقت پوری پارلیمنٹ کو ہارانے کوشش کی گئی ہم تب بھی نہ گھبرائے ۔ جب ہمارے GHQپر حملہ ہوا ہم تب بھی نہ گھبرائے جب میر ے شہباز بھٹی کو ہم سے چھین لیا گیا۔ ہم اس وقت بھی نہ گھبرائے ۔ جب میرے ہی شیر پنجاب سے ہم کو چھین لیا گیا ہم تب بھی نہ گھبرائے جب ہماری ہی بی بی کو شہید کردیا گیا ہم نے تو اس وقت بھی پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا ، ہمیں تو کوئی نہ ڈرا سکا ۔ کل بھی ہم تھے۔ اور آج بھی ہیں اور آئندہ بھی ہم ہی ہونگے ۔
ہم وقت کے سینے میں ڈھرکتاہوا دل ہیں۔۔
ہم پاکستان کی رگوں میں دوڑتا ہوا لہو ہیں ۔۔
ہم قائد عوام کے جیالے ہیں۔ ۔
ہم بی بی شہید کے دیوانے ہیں۔۔
یاد رکھناپیپلز پارٹی صرف سیاسی پارٹی نہیں ۔ یہ ہماری زندگی ہے شہید بی بی آج بھی آپ کے درمیان زندہ ہے۔ وہ آپ کے جذبوں کو دیکھ رہی ہے۔ وہ آپ کے جوش سے واقف ہے اور آپ کو پکار پکار کر بول رہی ے۔ 
بول کہ لب آزاد ہے تیرے ۔۔۔۔بول زبان اب تک تیری ہے۔
تیراستونج جسم ہے تیرا بول کہ جان اب تک تیری ہے۔
بول کہ تھوڑا وقت بہت ہے جسم اور زبان کی موت سے پہلے 
بول کہ سچ زندہ ہے اب تک بول جو کچھ کہنا ہے کہہ دے
آج بی بی شہید آپ کو سن رہی ہے۔ بی بی شہید کو آپ کے نعروں کی آواز آرہی ے۔ آج بی بی شہید آپ کے درمیان زندہ ہے۔


بی بی کے قاتل شرمندہ ہے۔ بی بی آج بھی زندہ ہے۔
بی بی کے قاتل شرمندہ ہے۔ بی بی آج بھی زندہ ہے۔
بی بی کے قاتل شرمندہ ہے۔ بی بی آج بھی زندہ ہے۔
بی بی کے قاتل شرمندہ ہے۔ بی بی آج بھی زندہ ہے۔
بی بی کے جیالوں ،
بی بی کی آصفہ کے جیالوں،
بی بی کی بختاور کے جیالوں ،
بی بی کے بلاول کے جیالوں اور بی بی کے دل کا ٹکڑا صدر پاکستان آصف علی زرداری کے جیالوں،

آؤ ہم سب ملکر ہماری بی بی ۔۔۔میری ماماکے لیے نعرہ لگائیں۔
نعرہ نعرہ نعرہ بھٹو
جئے جئے جئے بھٹو
نعرہ نعرہ نعرہ بھٹو
جئے جئے جئے بھٹو۔۔۔۔جئے بھٹو بے نظیر
نعرہ نعرہ نعرہ بھٹو۔۔۔۔جئے بھٹو بے نظیر
نعرہ نعرہ نعرہ بھٹو
جئے جئے جئے بھٹو ۔۔۔۔۔۔جئے بھٹو بے نظیر
نعرہ نعرہ نعرہ بھٹو
جئے جئے جئے بھٹو ۔۔۔۔۔۔جئے بھٹو بے نظیر
زندہ ہے بی بی۔۔۔۔زندہ ہے
زندہ ہے بی بی۔۔۔۔زندہ ہے
زندہ ہے بی بی۔۔۔۔زندہ ہے
زندہ ہے بی بی۔۔۔۔زندہ ہے
زندہ ہے بی بی۔۔۔۔زندہ ہے
زندہ ہے بی بی۔۔۔۔زندہ ہے
زندہ ہے بی بی۔۔۔۔زندہ ہے
یا اللہ یا رسول۔۔۔۔۔۔۔۔ بے نظیر بے قصور

Wednesday, 26 December 2012

Why We Love Benazir Bhutto?


Benazir Bhutto inherited the party from Bhutto but in many ways she earned her title. Since her brothers chose to stay outside and indulge in militant tactics, she decided to adopt the political course and tried to engage with the supporters of her party. Even legacy politics needed charismatic inheritors who can engage with the masses. It is that kind of mass populism which acts as a cancelling agent to religious fervour and its political manifestation at the mass level. Benazir Bhutto could do it brilliantly, despite the fact that her Urdu was not as fluent as her father’s. As a Muslim woman leader, Benazir Bhutto was almost an iconic figure in the West. Benazir Bhutto excelled at asserting her right to rule in a male-dominated Islamic society, where she rose to become her slain father's political successor; twice getting elected as Prime Minister of Pakistan. Hence, twice, Benazir Bhutto went into exile. Benazir Bhutto was better at rallying people to the idea of her power than at keeping them inspired by her use of it.

She was a privileged child and took the mantle of power from her father, Zulifiqar Ali Bhutto, the fiery and magnetic founder of the Pakistan People's Party; who himself would become a martyr for democracy when he was executed in 1979, by the military dictatorship of General Zia Ul Haq. The only political leader of the people was Zulfiqar Ali Bhutto who had vision of a vibrant Pakistan after it was reduced to half the size of what the father of the nation Quaid-i-Azam Mohammad Ali Jinnah had given to us . Zulfiqar Ali Bhutto was great charismatic leader, man of masses, top class negotiator, excellent communicator, a visionary, known for mercurial brilliance, wit and a highly well-read person. He attracted mammoth crowds wherever he addressed public meetings, even in remote regions of the country.

 Benazir Bhutto inherited her bearing and physical presence from her mother, Nusrat Ispahani, from a distinguished Kurdish family from Iran. Educated at Radcliffe and Harvard, she also studied Law at Oxford. Ms Bhutto was a deeply polarizing figure, the “daughter of Pakistan”. A woman of grand aspirations with a taste for complex political manoeuvring, Ms Bhutto was first elected prime minister in 1988, at the age of 35. During her years in office, as during those of her rival, the former prime minister Nawaz Sharif, Pakistan ran up enormous and unserviceable foreign debts and billions of dollars in foreign aid went unaccounted for. Ms Bhutto, though progressive in her approach to Islam, was not above bending to the will of religious conservatives for when politically expedient.

Here, we have some important points from her last speech of her meritorious career and life:
 “I have come to Rawalpindi today, I understand this is the city of brave and sacrificing people, I consider Rawalpindi as my second home. When Bhutto Sahib was a minister, I used to live here; I used to go to a school at Rawalpindi. I have seen moments of joy and gloomy times in Rawalpindi. I must say that the brave people of Rawalpindi have been with me in moments of happiness, brave sisters and brethren of this city stood by me in hours of our sadness, they have never let me alone”.

 “This is the same city which saw that when Yahya Khan was not leaving, they thronged him to the Liaquat Bagh to hold a huge and powerful rally and that forced dictator Yahya to step down and soon after, the government of the Pakistan People’s Party was established. Rawalpindi is the same city from where Zulfiqar Ali Bhutto started his struggle for democracy. The sun of democracy will again rise on the horizon of Rawalpindi”.

 “The people of this city love democracy and have never bowed their head before autocratic regimes.  “My dear sisters and brethren, you are the real power, if Pakistan is a big country of the world and the world holds Pakistan in respect, it is because of your strong will and sacrifices. Your sister feels confident that they way you stood by the Quaid-i-Azam, the Quaid-i-Awam and the Pakistan People’s Party for the development and wellbeing of Pakistan; you will lend your strength to the daughter of the Qaid-i-Awam to achieve the cherished goal of a glorious, strong and prosperous Pakistan where they live in peace and an environment of dignity and honour”.

 “Brethren and sisters, the Pakistan People’s Party has always made hectic efforts to make Pakistan strong. And when you elected your sister you did not only elect a prime minister but also the first woman head of government in the whole of the Muslim world. This raised the image of Islam and Pakistan as an enlightened society”.
 “The Pakistan People’s Party has always enjoyed the support, love and cooperation of the people. We have made strong governments and this strength was bestowed upon our governments by the people. Quaid-i-Awam saved the country; he organized and mobilized the power of the people to retrieve the country out of crises. Today our motherland is calling us that I am in danger”.

 “We will also spread the light of education to every nook and corner of Pakistan. Your sister will give you a university at this Potohar region so that your children can get better, higher quality education and secure good jobs. My sisters, brethren, elders, we will raise the level of education and give the teacher respect and a quality life”.

 “The Quaid-i-Awam was put to gallows, my two brothers were assassinated, my mother had her head injured with a stave attack, your brother Asif Ali Zardari was put in jail, he was kept in Pindi and Attock prisons and I too was placed in prison and incarcerated several times. Yet we did not part our ways with the people and the people also remained steadfast and kept on supporting us; they are still with us and together we will realize the cherished goal of justice and a welfare society. None of us left each other because ours is the way of truth, ours is the way of justice, ours is the way of legitimacy; no one can separate us from pursuing this path”.

 “My sisters and brethren, you have given a great honour to your sister. Twice you elected me as the prime minister; it is no longer important if I become the prime minister for the third time; what is important is that I have risked my life while coming back; but I had to return because my country is in danger. I feel that the people feel concerned about the country’s circumstances”.

 She is not in the world now, but her name is still settled in our hearts. These are the reasons to Love Benazir.

Monday, 10 December 2012

بیادِ بے نظیر (بے نظیر بھٹوکا ویژن ، قومی مفاہمت اور امن)

وفاقی وزیر اطلاعات اور پیپلز پارٹی کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات قمر الزماں کائرہ نے کہا ہے کہ ہم اس ملک میں سیاسی صدور چاہتے ہیں ،سازشی صدور نہیں چاہتے کیونکہ اس ملک کو ایک سیاسی صدر نے بنایا ہے۔ پاکستان کے مفاد کے لئے ہمیں نفرتوں کی سیاست کا اس ملک سے خاتمہ کرنا ہوگا۔ کوئی ایک جماعت اس ملک کے مسئلے حل نہیں کرسکتی اس لئے تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر اس ملک سے مسائل کا خاتمہ کرنا ہوگا، ہم پر چارٹرڈ آف ڈیموکریسی پر دستخط کرکے مکر جانے کے الزامات دینے والے آج پنجاب میں اسی سی او ڈی کی مخالفت کرکے قائم کئے ہوئے ہیں اور وہاں دیگر سیاسی جماعتوں کے لوگوں کی وفاداریاں تبدیل کی گئی۔نواز شریف کو سیاست سے الگ کرنے کا نہیں سوچ سکتے، عدلیہ کا ذوالفقار علی بھٹو سے لیکر آج تک پیپلز پارٹی کے ساتھ رویہ رہا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیپلز یوتھ آرگنائیزیشن ،کراچی ڈویژن کے تحت مقامی ہوٹل میں "بیاد بے نظیر" بے نظیر بھٹو کا ویژن، قومی مفاہمت اور امن کے عنوان سے منعقدہ سیمینارسے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر وفاقی وزیر نے پیپلز یوتھ کراچی کی ویب سائیڈ کا بھی افتتاح کیا اور بے نظیر بھٹو کے حوالے سے بنائی ڈوکومیٹری کا بھی افتتاح کیا۔ سیمینار سے پیپلز پارٹی کراچی ڈویژن کے صدر و رکن قومی اسمبلی عبدالقادر پٹیل، متحدہ قومی موومنٹ کے رہنماء حیدر عباس رضوی ، پیپلز یوتھ کراچی کے صدر رؤف احمد ناگوری، حسین نقی، اصغر ندیم سید، سنئیر صحافی نظیر لغاری، وجاہت مسرور، نجمی عالم، غلام شہباز بٹ اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔ تقریب میں پروفیسر این ڈی خان،مرزا اختیار بیگ، سندھ کے وزیر ساجد جوکھیو، لطیف مغل، رکن سندھ اسمبلی فرزانہ بلوچ، نسرین چانڈیو، اسلم سموں، سہیل عابدی، رزاق راجہ، قاسم بلوچ اور دیگر بھی موجود تھے۔قمر زمان کائرہ نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج کے اس سیمینار کو موضوع ملکی تاریخ کے لئے اہم موضوع ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں آمریت کے کندھوں پر حکومت میں آنے والوں اور عوامی ووٹوں سے آنے والے دو علیحدہ علیحدہ رویوں کے حامل لوگ تھے۔ انہوں نے کہا کہ یہی وجہ تھی کہ آج تک جتنی حکومتیں آئیں ان میں اقتدار میں آنے والی جماعتیں اپوزیشن کی جماعتوں پر یہ ملک تنگ کردیا کرتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ چارٹرڈ آف ڈیموکریسی پر دستخط کرکے شہید بے نظیر بھٹو نے اس ملک سے نفرت کی سیاست کا خاتمہ کیا اور تمام تر صعوبتیں برداشت کرنے کے باوجود انہوں نے میاں نواز شریف کی جانب مفاہمت کا ہاتھ بڑھایا اور لندن میں چارٹرڈ اور ڈیموکریسی پر دستخط کئے گئے۔ انہوں نے کہا کہ اس پر پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو شدید تحفظات تھے تاہم محترمہ نے درس دیا کہ ہمارے تحفظات اس ملک کی بقاء و سالمیت سے بڑھ کر نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج بھی ہمارے اتحاد میں شامل جماعتوں کے ساتھ ماضی بہت تلخ رہا ہے لیکن ہم نے تمام تلخیاں بی بی کے وژن پر بھلا دی ہیں اور اسی نظریہ پر چل کر ہم اس ملک کو تلخیوں کی سیاست سے آزاد کرا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نفرتوں کو بڑھانے میں بہت کم وقت لگتا ہے لیکن اسے کم کرنے میں بہت وقت لگ جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بی بی کی شہادت کے بعد بھی حالات بہت تلخ ہوگئے تھے لیکن پارٹی کے شریک چیئرمین نے محترمہ کے وژن پر کارفرما ہوکر تلخیوں کا خاتمہ کیا اور مفاہمت کہ سیاست کا آغاز کیا۔ انہوں نے کہا کہ آصف زرداری نے بی بی کی شہادت کے بعد تمام سیاستدانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا شروع کیا اور اس پر ہمیں کئی الزامات کا سامنا آج بھی کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف کو اگر ہم طاقت اور تلخیوں کے ذریعے ہٹاتے تو آج بھی اس ملک میں جمہوریت نہیں آتی اور یہ بات ہی کچھ لوگوں کو اچھی نہیں لگ رہی۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں سی او ڈی پر دستخط کرکے مکر جانے کے الزامات دینے والے آج پنجاب میں اسی سی او ڈی کی مخالفت کرکے قائم کی گئی اور آج تک قائم ہے اور وہاں دیگر سیاسی جماعتوں کے لوگوں کی وفاداریاں تبدیل کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس وقت بھی پنجاب کی حکومت کو گرا سکتے تھے لیکن آصف علی زرداری نے پھر محترمہ کی جمہوریت کی وژن پر اپنا سیاسی نقصان ضرور کیا لیکن مفاہمتی سیاست کا قتل نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ عدلیہ کے ساتھ بھٹو سے لیکر آج تک ایک خاص فضا رہی ہے۔ عدالت کے ساتھ ہماری کبھی نہیں بن پائی۔ انہوں نے کہا کہ ہم ہی عدالتوں کے ہاتھوں قتل ہوتے ہیں اور ہم انہی عدالتوں کا ہم عزت کرتے ہیں۔انہی عدالتوں نے ہماری حکومتیں گرائی، ہمارے منتخب وزیر اعظم کو گھر بھیجا لیکن ہم نے ان کی عزت کی ہے۔ کائرہ نے کہا کہ تصادم کا خاتمہ ہی اس ملک کو بچانے کی سیاست کا حقیقی نظریہ ہے اور اس پر ہم عمل پیرا ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بی بی شہید کے مفاہمتی سیاست کے نظریہ کے باعث ہی ہم نے آج 5 سال پورے کئے ہیں اور ایک شفاف انتخابات کی راہ ہموار کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج ہمیں یہ طعنہ دیا جارہا ہے کہ پیپلز پارٹی آنے والے انتخابات میں عوام کے پاس کیا لیجائے گی تو ہم انہیں بتانا چاہتے ہیں کہ ہمیں 2008 میں جو پاکستان ملا تھا اسے 2013 میں ہم نے کیا بنایا اس کا ہم جواب دینے کے ذمہ دار ہیں 1947 سے آج تک کے پاکستان کے ہم ذمہ دار نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 2008 میں پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ دہشتگردی تھا اسے نہیں بھولنا چائیے۔ انہوں نے کہا کہ 2008 میں مالاکنڈ تک طالبان آگئے تھے اور 10 روز میں اسلام آباد پر قبضہ کی آواز دی جارہی تھی، ہر سہر میں روزانہ بموں کے دھماکہ ہوتے تھے، روزانہ کئی کئی شہادتیں ہوتی تھی اور ہماری افواج کے جنازے ہم رات کی تاریکیوں میں پڑھانے پر مجبور تھے ہمیں ایسا پاکستان 2008 میں ملا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اسی سال میں سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کی حکومتیں جو ہماری حکومتیں تھی لیکن وہ این ایف سی ایوارڈ پر وفاق کے ساتھ بھی بیٹھنے کو تیار نہیں تھی۔ پہلے سال ہم نے 25 لاکھ ٹن گندم باہر سے منگوائی۔ 2008 میں جب ہمیں یہ ملک ملا تو عالمی بحران آتا ہے اور اس کا بھی ہم مقابلہ کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج پاکستان فوڈ کے معاملہ میں خود کفیل ہے بلکہ ہم لاکھوں ٹن خوراک بیروب ملک بھیجنے کے قابل ہوئے ہیں۔ آج اسٹاک مارکیٹ تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے اور یہ تیزی بیرون سرمایہ کاری سے نہیں بلکہ ہماری کمپنیوں کی شئیر ہولڈرز کو منافع دینے کے باعث ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں معیشت مستحکم ہوتی تھی تب بھی اسٹاک مارکیٹ بیرونی طاقت کی وجہ سے نیچے ہوجاتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ کالا باغ ڈیم ہو یا صدر کے دو عہدے یہ سیاسی معاملات ہیں ان کو پارلیمنٹ میں رہنے دیں یہ عدالتی ایشو نہیں ہیں۔ ہم عدلیہ کا احترام کرتے ہیں لیکن عدالتوں کو بھی اپنا احترام کرانے کے لئے اپنے فیصلوں پر نظرثانی کرنی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ صدر نے اپنے تمام اختیارات وزیر اعظم کو دے دیا ہے تو اب لوگوں کو ایوان صدر سے کیوں خوف ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں ڈاکہ ایوان صدر سے پڑتے آئے تھے لیکن ہم نے تو آکر صدر کے اختیارات کو ہی وزیر اعظم کو سونپ دیا۔ انہوں نے کہا کہ آصف زرداری 2008 میں وزیر اعظم بن سکتے تھے لیکن وہ اس ایوان صدر کو جو ہمیشہ جہموریت کے لئے سازش کا منبیہ بنا رہا اس کو سنبھالا اور اس ایوان صدر سے جمہوریت کے خلاف سازشوں سے نجات دلائی۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے خلاف متعدد عدالتی کمیشن بنائے گئے اور ہمیں کرپٹ قراد دینے کی سازشیں کی گئی لیکن کوئی یہ تو بتائے کہ ان کمیشنز سے کیا نکلا۔ انہوں نے کہا کہ ایل پی جی معاہدہ، رینٹل پاور معایدہ سمیت متعدد میں کرپشن کا الزام عائد کیا گیا لیکن کسی میں کوئی کرپشن کمیشنز ثابت نہیں کرسکا بلکہ اس سے اس ملک کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا گیا اور عوام کو گیس اور بجلی کے بحران میں مبتلا کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے کرپشن میں پاکستان کے نمبر 33 پر آنے کا طعنہ دیا جاتا ہے۔ شہباز شریف کے اپنے بھائی کے دور میں جب وہ وزیر اعظم تھا پاکستان کرپشن میں دوسرے نمبر پر تھا وہ کس منہ سے ہمیں طعنہ دے رہا ہے۔ پاکستان کے تیز ترین ارب پتی ہمیں یہ تو بتائے کہ ان کے پاس کیا کلیہ ہے کہ وہ اس رفتار سے روپے کہاں سے لائے۔انہوں نے کہا کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے کوئی ٹھوس شواہد نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ روزانہ 7 ارب کی کرپشن کا الزام عائد کرنے والوں کو یہی نہیں معلوم کہ ہمارے گذشتہ 5 برس کا بجٹ بھی 25 کھرپ کا نہپیں تو ہم نے ساڑھے 25 کھرب کا کیسے کرپشن کیا۔ قمر الزماں کائرہ نے کہا کہ ہم نے احتساب کے لئے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمیں کا عہدہ اپوزیشن لیڈر کو دے کر اپنے آپ کو احتساب کے لئے پیش کیا ہے اور آج وہ کمیٹی ایوان صدر، ایوان وزیر اعظم سب کو نوٹس بھجوا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اصغر خان کیس نے کئی معملات سے پردہ اٹھایا ہے اور کئی معاملات سے پردہ اٹھنا باقی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی صدور چاہتے ہیں سازشی صدور نہیں چاہتے کیونکہ اس ملک کو ایک سیاسی صدر نے بنایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں آج جہموریت اسی سیاسی صدر کے باعث ہے۔ پاکستان کے مفاد کے لئے ہمیں نفرتوں کی سیاست کا اس ملک سے خاتمہ کرنا ہوگا۔ کوئی ایک جماعت اس ملک کے مسئلے حل نہیں کرسکتی اس لئے تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر اس ملک سے مسائل کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کراچی ڈویژن کے صدر اور رکن قومی اسمبلی عبدالقادر پٹیل نے کہا کہ آج کا یہ سیمینار کسی بڑے جلسہ سے زائد سود مند ثابت ہوا ہے اور اس طرح کے انعقاد سے ہم عوام کو اس ملک کے حقیقی معاملات سے آگاہ کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے محترمہ بے نظیر سے یہی سیکھا ہے کہ سیاسی قوتوں کو ملا کر ہی اس جمہوریت کے خلاف نہ نظر آنے والی قوتوں کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بی بی نے ہمیں سکھایا کہ اختلاف دشمنی نہیں ہوتا، ہم کم عقل لوگ اختلاف کو دشمنی بنا دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے محترمہ کے وژن ایک مضبوط پاکستان کے لئے جمہوریت لازم کو اپنایا ہے اور اس پر ہی عمل پیرا ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ گذشتہ دو نسلیں پارٹی قیادت کو نہیں سنبھال سکیں لیکن آج ہم پیپلز یوتھ اور پی ایس ایف کو 27 دسمبر کو نیا چیئرمین سونپ رہے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ اب یوتھ اس کو سنبھال لے گی۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے متحدہ قومی موومنٹ کے رہنماء و سابق رکن قومی اسمبلی اور وزیر اعلیٰ سندھ کے معاون خصوصی حیدر عباس رضوی نے کہا کہ میری پیدائش اور پروروش پیپلز پارٹی کے سپوٹرز کے گھر میں ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی موجودہ سیاست اور آنے والے برسوں میں بھی پورے ملک میں کوئی ایسی جماعت نہیں ہے جو اس ملک میں مکمل کامیاب ہوسکے۔ اس لئے کوئی بھی سیاسی جماعت اقتدار میں آئے گی اسے سیاسی مفاہمت اور اتحادی چننے ہونگے۔ انہوں نے کہا کہ متحدہ قومی موومنٹ اور پیپلز پارٹی کے اتحادی تعلقات آصف زرداری کے حوالے سے صرف نہیں ہیں بلکہ شہید بے نظیر بھٹو پاکستان آنے سے قبل اور پاکستان آنے کے بعد بھی مسلسل ایم کیو ایم سے رابطے میں تھی۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ 5 برس میں انتہاہی مشکلات کے باوجود ہم نے محترمہ کے خواب کو پرا کرنے میں مصروف ہیں اور اسے ہمیں آگے بھی لیکر چلنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ بہت سے ایسے بیرونی اور اندرونی عناصرپیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی مفاہمت کو ثبوتاژ کریں لیکن ہماری ذمہ داری ہے کہ ایسے عناصر کو ان کی سازشوں میں کامیاب نہ ہونے دیں۔ انہوں نے کہا کہ بہت سارے لوگوں کو ہمارا اتحاد چھبتا ہے اور وہ کوشش کررہے کہ وہ اس اتحاد کو توڑ دیں۔ اس لئے ایسی صورتحال میں ہم سب کو قدم بھونک بھونک کر رکھنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ لاش لیاری کی ہو یا لیاقت آباد کی ہو وہ لاش ہماری ہے۔ یہ قتل شہید محترمہ اور الطاف حسین کے خواب کا قتل ہے۔ ہمیں پاکستان کے بہتر مستقبل اور محترمہ کے خواب کی تعبیر کے لئے ماضی کی غلطیوں کو بھلا کر آگے بڑھنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے بہتر مستقبل کے لئے ہمیں ایک ساتھ چلنے ہونگے اور بہت سے محاورے غلط کرنے پڑیں گے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ کی میان میں دو تلواریں اب رہیں گی اور اسے ہم مل کر رکھیں گے۔ ہمیں اس شہر، صوبے اور ملک کو ساتھ آگے لیکر چلنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ مفاہمت کا مطلب حکومت بنانا نہیں بلکہ سب کو ساتھ لیکر چلنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ بہت سے سیاسی پنڈت بڑی بڑی شیروانیاں سلوا کر خواب دیکھ رہے ہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ ہماری سیاسی مفاہمت سے آئندہ 5 برس بھی ہم حکومت بنائیں کیونکہ اس سے ان کے خواب چکنا چور ہوجائیں گے۔ معروف ڈرامہ نگار اصغر ندیم سید نے کہا کہ بی بی کے وژن پر چلنا آسان نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس نے امن اور جمہوریت کی خاطر پیپلز پارٹی نے جانوں کے نذرانے دئیے۔ انہوں نے کہا کہ بھٹو کا دور انقلابی تبدیلیوں کا دور دیا اور اس میں انہوں نے جو وژن دیا وہ قابل ستائش ہے۔ انہوں نے کہ اسی وژن نے آج پاکستان کو لبرل اور فلاحی معاشرہ کا رنگ دیا۔ انہوں نے کہا کہ بھٹو نے تعلیمی سطح پر استادوں کو ذوالفقار علی بھٹو نے عزت دی۔ انہوں نے کہا کہ بینظیر بھٹو نے بھی اپنے والد سے تربیت حاصل کی۔ انہوں نے کہا کہ ایک سازش کے تحت نائین الیون کے بعد عوام کو تقسیم کیا گیا اس کی وجہ اس ملک میں جمہوریت کا نہ ہونا تھا۔ انہوں نے کہا کمہ پیپلز پارٹی کے اکابرین کو اب پنجاب کے حوالے سے بھی سوچنا ہوگا کیونکہ پنجاب اس وقت بے حال ہے۔اس وقت پیپلز پارٹی پورے ملک کی جماعت ہے اور بلوچستان کا مسئلہ عوامی بصیرت سے حل کیا جاسکتا ہے۔ سنئیر صحافی نذیر لغاری نے کہا کہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ بے نظیر کی آمد کے موقع پر حکومت کی جانب سے مختلف خدشات کا اظہار تو کیا گیا تھا لیکن اس کے سدباب کے لئے کس قسم کے انتظامات کئے گئے ہیں اس حوالے سے کوئی آگاہی نہیں تھی۔ انہوں نے کہا کہ صنم بھٹو نے کھلے عام کہا ہے کہ میر بہن کو انہی لوگوں نے مارا ہے جس نے میرے باپ اور بھائیوں کو مارا تھا اور اب یہ مسئلہ پیپلز پارٹی کی قیادت کو حل کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ بے نظیر کی شہادت اور ذوالفقار بھٹو، مرتضیٰ بھٹو اور شاہنواز بھٹو کو قتل کیا انہیں اب کٹہرے میں لانا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ تاریخ کے کٹہرے میں ان ملزمان کو لانا ہوگا اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو تاریخ آپ کی خاموشی کو بھی پیش کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ بے نظیر بھٹو پاکستان کی روح کو سمجھنے والی شخصیت تھی اور اس کے دل میں اس ملک کے عوام کی تڑپ تھی اسی لئے ہو پاکستان آئی لیکن اسے ہم سے انہیں چھین لیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ مفاہمت کی سیاست ضرور ہونی چائیے لیکن ایسی مفاہمت نہ کی جائے جس میں عوام کی جان و مال کی حفاظت نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ آج پیپلز پارٹی حکومت میں ہے اور انب کے سینکڑوں کارکنان شہید اور ہزاروں کارکنان چھپتے پھر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسی حکومت میں یہ پارٹی کیوں بیٹھی ہے۔ اگر حکومت میں بیٹھنا ہے تو پھر اب اس عوام کے لئے سوچنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ محترمہ کی پارٹی میں نوکریوں کی اتنے بڑے پیمانہ پر خرید و فروخت ہوگا یہ کبھی نہیں ہم نے سوچا تھا۔ غلام شہباز بٹ نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بے نظیر بھٹو کا وژن پاکستان میں اپنے لہو سے جنم دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج یہ خطہ صرف اور صرف پاکستان کی سالمیت سے مشروط ہے اور پاکستان کی سالمیت محترمہ کے وژن کو اپنا کر ہی کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی مفاہمت پروان نہ چڑھی تو پاکستان کا مفاد خطرے میں پڑ جائے گا اور یہ خطہ غیر مستحکم ہوجائے گا اور دنیا بھر میں اس کی تباہی آئے گی۔ پیپلز پارٹی کے کارکنان امن کے لئے آمریت کے خلاف جنگ لڑنا جانتے ہیں اور اگر کوئی اور آمریت جمہوریت کے خلاف آئی تو اس کے خلاف بھی پیپلز پارٹی کا کارکن آج بھی جنگ لڑنے کو تیار ہے۔ وجاہت مسعود نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں اور کارکنان پاکستان کے لئے سرمایہ ہیں اور پیپلز پارٹی اور ان کے کارکنان کا ایک بہت بڑا کردار اس ملک میں جمہوریت کی بحالی کے لئے ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (اپچ آر سی پی)کے ڈائیریکٹر حسین نقی نے کہا کہ شہید ذوالفقار بھٹو سے زیادہ سیاسی تحریک سے گزری وہ محترمہ بے نظیر بھٹو تھی۔ انہوں نے کہاکہ بے نظیر بھٹو اپنی زمانہ طالبعلمی میں ہی سیاسی سفر کا آغاز کردیا تھا اور قید وبند اور ملک بدری کی صہوبتیں برداشت کیں۔ انہوں نے کہا کہ بے نظیر اپنے خاندان کی چوتھی شہید تھی یہ بات اس قوم کے نوجوانوں کو غور سے سمجھنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ان تمام کے پس پشت وہ عناصر تھے جو اس ملک میں روشن خیالی کے مخالف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مذہب کو سیاست کے لئے استعمال کرنا ناکامی کے مترادف ہے۔

Thursday, 6 December 2012

Bilawal Bhutto stresses on protecting minorities


Pakistan People's Party chairman Bilawal Bhutto Zardari on Monday reacted to the desecration of an Ahmadi graveyard and the demolition of a Hindu temple by saying that such incidents, if left unchecked, would pose a threat to the existence of Pakistan. Taking strong exception to the latest attacks on minorities, Bilawal said the "continuing attacks on minorities, if unchecked, would threaten the very existence of Pakistan".

In a statement issued in response to the two incidents, the nominal head of the ruling party urged political parties, religious groups and civil society organisations to "rise up to defend Jinnah's Pakistan that guarantees protecting fundamental rights of minorities".

He called on provincial governments and law enforcement agencies to do their best to protect the fundamental rights of minorities. Attacks on temples, graveyards, properties and lives of the minorities are "an attack on Jinnah's vision of Pakistan and pose an existential threat to the country", he said.