Monday 31 December 2012

PPP Chairman Bilawal Bhutto Zardari's speech of Dec 27,2012


سم اللہ الرحمن الرحیم
نعرہ تکبیر ۔۔۔ نعرہ رسالت ۔۔۔نعرہ حیدری
میر ے ساتھیو ۔۔۔میرے بھائیوں ۔۔۔میری بہنوں اورمیرے بزرگوں
اسلام وعلیکم۔۔۔
جئے بھٹو۔۔۔ جئے بے نظیر۔۔۔
میں آج گڑھی خدا بخش کی اس مقد س سرزمین پر شہیدو ں کے درمیان ہوں ۔میرے ساتھ میر ے نانا قائد عوام شہید ذولفقار علی بھٹو بھی ہیں اور میری ماں شہید بی بی بھی ۔۔۔ میرے ساتھ وہ ہزاروں شہید بھی ہیں جو قائد عوام کی آواز پر جمہوریت کی جنگ میں شہید ہو گئے وہ ہمارے ساتھ ہیں ۔وہ ہمارے دلوں میں زندہ ہیں ۔ ہمارے آنکھوں میں زندہ ہیں ۔ہمارے جذبوں میں زندہ ہیں اور ہمیشہ زندہ رہینگے ۔ 
مگر ساتھیوں یہ شہادتیں کیوں؟ امن وامان کے سفیروں سے دشمنی کیوں؟ جمہوریت کے چاہنے والوں کا قتل کس لئے؟
بات یہ ہے کہ اس ملک میں صرف دو طاقتیں ہیں۔ ایک آپ ہیں۔ جو پہلے دن سے حق اور سچ کے راستے پر چل رہے ہیں۔ اور ایک وہ ہیں جن کی فطرت میں جھوٹ کے سواء کچھ بھی نہیں ۔ جنہیں صرف آمریت کا راستہ پسند ہے۔ ایک آپ ہیں جو عوام کی زندگی کے لیے اپنی جان قربان کر دیتے ہیں۔ اور ایک وہ ہیں جو اپنی زندگی کے لیے عوام سے جینے کا حق بھی چھین لیتے ہیں ۔ میں آج گڑھی خدا بخش کوگواہ بنا کر ان سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ کہاں تک جاؤ گے۔
آپ جو قائد عوام جیسے سورج کو غروب کرکے سمجھتے تھے کہ یہ راہ امر ہوجائے گی میں آپ سے پوچھتا ہوں آپ جو شہید بی بی جیسی مشعل بجھاکر خوش تھے کہ آپ اب اندھیرے کبھی ختم نہیں گے۔ میں آپ سے پو چھتا ہوں آپ جو شہید بلور جیسا چراغ بجھا کر سمجھتے تھے کہ تم ہمیں گھروں میں قید کر دوگے۔ میں آپ سے پوچھتا ہوں آپ جو ملالہ جیسی شمع جھلنے سے اتنا خوف کھاتے ہوں کہ اسے بھی ختم کرنے چل دیئے۔ میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ آپ کہاں تک جاؤ گے ۔ یاد رکھنا ہم قائد عوام کے دیوانے ہیں۔ ہم بھٹوکے پروانے ہیں اگر آپ ایک بھٹو مارو گے تو ہر گھر سے بھٹو نکلے گا۔ آپ ایک چراغ بجھاؤ گے تو لاکھوں روشنیاں نظر آئے گی ۔ ایک بلور شہید ہوگا تو ہزاروں بلور سامنے آئینگے ۔ایک مشعل بجھاؤں گے تو لاکھوں شمعیں جلیں گی۔ ایک ملالہ پر حملہ ہوگا تو ہزاروں ملالہ پیدا ہوگی۔ ایک بی بی شہید ہوگی تو ہر عورت بے نظیر بھٹو بنے گی۔
بھٹو ایک نام نہیں، ایک جنون ہے۔۔ایک جذبہ ہے۔۔ ایک عشق ہے۔۔ 
یہ بازی خون کی بازی ہے 
یہ بازی تم ہی ہارو گے
ہر گھر سے بھٹو نکلے گا تم کتنے بھٹو ماروگے۔
میرے ساتھیو! ہم نے بہت مشکل راستہ کیا ہے۔ ہمارا راستہ جمہوریت کا راستہ ہے۔ اس راستے میں آنسو بھی ہے۔ آہیں بھی ہیں۔ کانٹے بھی اور پتھر بھی ہے۔ اور یہی وہ راستہ ہے جس پر ہماری شہید بی بی نے چلنا سکھایا ۔ قتل گاہ سے علم اٹھاکر چلنے والی بیٹی آگ اور خون کے دریاؤں سے گزر گئے مگر اس نے عوام کا پرچم گرنے نہیں دیا۔ اور ہمیں یہ پیغام دے گئی کہ یہی پیپلز پارٹی کا راستہ جھوٹ سے جنگ کا راستہ ہے۔ اور اس راستے پر سر جھکا کر نہیں حسین کی طرح سر کٹا کر جیسا جانا ہے۔ 
یہ قدم قدم بلائے کہ سوار جانا
وہ یہیں سے لوٹ جائے جنہیں زندگی ہر پیاری 
ساتھیو! آج جمہوریت کے سائے میں بیٹھنے والے یا د رکھے یہ جمہوریت ہم لے کر آئے ہیں اور اس کی حفاظت بھی ہم ہی کرینگے ۔ آج پارلیمنٹ اپنے فیصلوں میں آزاد ہے۔ صوبے خود مختار ہیں۔ طاقت کا مرکز ایک انسان نہیں بلکہ عوام ہے۔ 1973کا آئین قائد عوام کا آئین ، بے نظیر بھٹو شہید کا خواب۔۔۔ جو ہم اپنی پہلے دور حکومت میں پورا نہ کرسکے آج اپنی اصلی صورت میں بحال ہو چکا ہے۔
آج صدر پاکستان کی قیادت میں ہم اسی راستے پر چل کر اس منزل تک جائینگے۔ جہاں ایک روشن پاکستان ہمارا انتظار کررہا ہے۔ دوستوں شہید بی بی کا خواب تھا کہ پاکستان کی عورت کا وہی مقام ہو جو پوری دنیاکی عورت کو حاصل ہے۔ آپ کے دور حکومت میں عورت کو ان کے گھروں میں مالی امداد دے کر ہم نے ایک صحت مند ان کے نئی بنیاد رکھی دی۔ جس میں کوئی عورت اپنی حقوق سے محروم نہیں ہوگی۔ Domestic abusiveسے لیکرPropertive disputeتک ، ہم نے اس حکومت میں ایسے قانون پاس کیے ہیں جو عورت کو مکمل تحفظ کرتے ہیں ۔ اور یہ سلسلہ جاری رکھینگے ۔
میرے ساتھیو! روٹی کپڑا اور مکان کل بھی ہمارا نعرہ تھا اور آج بھی ہمارا نعرہ ہے۔ یہ انسا ن کی ضرورت ہے اور یہ ضرورت کسی وسیلے کے بغیر پوری نہیں ہوسکتی اور آ ج ہم فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ آپ کی ضرورت آپ کی حکومت میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی صورت میں پورا کرنا شروع کردی ہے۔ ہمارے غریب پیسے سے محروم تھے ہم نے ان کے لئے وسیلہ حق شروع کیا۔ نوجوان کام سیکھنا چاہتے تھے مگر کوئی سیکھانے والا نہ تھا ۔ ہم نے وسیلہ روزگار کا آغاز کیا۔ صحت مند رہنا ہر شہری کا حق ہے۔ ہم نے وسیلہ صحت کا پروگرام دیا۔ ہمارے بچے جو اس قوم کا مستقبل ہے۔ ان کے پاس تعلیم نہیں تھی ہم نے وسیلہ تعلیم کا آغازکیا ۔ یہ تو شروعات ہے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے اور یہ مشن اس وقت پورا ہوگا۔ جب ہمارے پاکستان کا ہرنوجوان نوکری پیشہ ہوگا۔ جب ہمارے ملک کا ہر بچہ تعلیم یافتہ ہوگا۔ جب انسان صحت مند ہوگا۔ اور جب میر ے پاکستان میں ہر پاکستانی کے پاس روٹی کپڑا اور مکان ہوگا تب تک یہ جنگ جاری رہیگی۔یہی جمہوریت ہے اور وہ بہترین انتقام ہے جس کا راستہ شہید بی بی نے دیکھایا تھا ۔
ساتھیو! پیپلز پارٹی نے اپنے دور حکومت میں بہترین Ecomony Policies دی۔ بد قسمتی سے یہ دور Global Recessionکا دور تھا۔ امریکہ اور یورپ بھی اسکے سامنے بے بس نظر آتے تھے ۔دنیا کے بہترین بینک بند ہوگئے لیکن ہمارے ایک بھی بینک کو امداد کی ضرورت نہیں پڑی اور پاکستان میں ہماری Economy Policies کی وجہ سے ہماری Economyدہشت گردی کے باوجود آج بھی اپنے پیروں پر کھڑی ہے۔ 
ہماری ایکسپورٹ اس سال 25بلین ڈالر سے زیادہ ہوچکی ہے۔ جب ہم حکومت میں آئے تھے تو پاکستان دوسرے ممالک سے گندم خریدنے پر مجبور تھا۔ آج ہم دنیا کو گندم دے رہے ہیں Inflation 25% تھی۔ جو آج صرف 9% ہے۔
Remittance چودہ ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ کراچی اسٹاک ایکسچنچ 16000 ہزار پوئنٹ سے چلی گئی ہے۔ ہم نے یہ سب کچھ کیا ہے۔ لیکن بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ہمارے سامنے مشکلات کے پہاڑ ہیں ۔ 
دہشت گردی اور سیلاب نے ہمیں بہت نقصان دیا ہے۔ ان حالات میں ملک سے محبت رکھنے والے ہر انسان کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ منفی سوچ ہمیں تباہی کی طرف لے جائیں گی۔Positive Thinking آج پاکستان کے لئے بہت ضروری ہے۔ہمارا منشور ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہے اور ہم نے عوام کی امانت عوام کو واپس کردی ہے۔ طاقت ہے تو عوام کی ہے۔ ریاست ہے تو عوام کی ہے۔ اور عوام کی اس طاقت کے سامنے کوئی نہیں روک سکتا ۔ابھی وہ ہی ہوگا جو عوام چائیں گے۔ جو آپ چاہیں گے۔
پاکستان جن مسائلوں سے گزر رہا ہے وہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔ بلوچستان میں لگنے والی آگ سے ہم غافل نہیں۔ ہم نے اس صورتحال پر قابو پانے کے لیے تاریخی اقدامات کئے ہیں۔ بلوچستان ہمارے جسم کا حصہ ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ مشرف نے بلوچستان کی عوام کے ساتھ دوشمنوں و الا سلوک کیا۔ ہم نے بلوچستان کے حقو ق کا آغاز ریاست کی طرف سے معافی مانگ کرکیااور یہ روکے گا نہیں ۔ ہم نے قانون پاس کیا۔ جس کا مقصد یہ ہے کہ بلوچستان کے وسائل سے اب صرف فیڈریشن کو فائدہ نہیں ہوگابلکہ صوبے کے عوام اپنے وسائل سے خود فائدہ اٹھائینگے ۔
بلوچستان کے مسائل ایسا نہیں کہ ایک دم حل ہوجائیں ۔ ہم نے مستقبل کے لیے ایسا راستہ لیا ہے کہ انشااللہ بلوچ ایک Peacfullسوسائٹی میں رہینگے ۔ میر ے نانا شہید ذولفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی میری ماں محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کو سر عام قتل کردیا گیا میر ے ہزاروں ورکرز کی جان لے لی گئی مگر ہم نے پاکستان کو نہیں چھوڑا ہم پاکستان کو کبھی نہیں چھوڑینگے ۔ میں اپنے بلوچ بھائیوں سے یہ کہتا ہوں کہ میرے پاکستان کو۔۔۔
قائد کے پاکستان کو۔۔۔
بی بی کے پاکستان کو۔۔۔
اپنے پاکستان کو۔۔ ۔ان ظالموں کے ہاتھ میں مت چھوڑنا۔
یہ آپ کا پاکستان ہے۔۔۔
یہ میرا پاکستان ہے ۔۔۔
یہ ہمارا پاکستان ہے۔
ساتھیو! آج ہم ایسی جگہ پر ہیں جہا ں ہمیں مستقبل کے راستے کا انتخاب کرنا ہے۔ ایک طرف ہم ہیں جو دہشت گردی کے سامنے سب سے بڑی دیوار ہیں۔ اور دوسری طرف وہ ہے جو دہشت گردوں کا نام لینے سے بھی ڈرتے ہیں ۔ ایک طرف ہم ہیں جنہوں نے اپنی سیاست کو انصاف پر قربان کردیا۔ دوسری طرف وہ ہیں ۔جنہوں نے انصاف کو سیاست پر قربان پر دیا۔
ساتھیو! ہم نے ہمیشہ عدلیہ کو آزادی اور خود مختاری دی ہے۔ ہم نے عدلیہ کے ہر فیصلے کو تسلیم کیا۔ میں آج اس ملک کے سب سے بڑے قاضی سے سوال کرتا ہوں کہ آپ کو تو سب کچھ پتہ ہے مگر پھر بھی آپ کو رات کی تاریخیں میں اُٹھنے والا قائدعوام کا جنازہ کیوں نظر نہییں آتا ۔ پیپلز پارٹی کا ہر ایک ورکر بھٹو ریفرنس کے فیصلے کا انتظار کر رہا ہے۔ میری رگوں میں بھٹو کا خون ہے۔ میں آپ سے پوچھتا ہوں ۔آپ کو بھٹو شہید کے ریفرنس سننے کا وقت نہیں۔مگر پکوڑے کی قیمت ، سموسے کی قیمت ، چینی کی قیمت ، سی این جی کی قیمت میڈیا پر اپنے خلاف بیانات پر بندش ، کالا باغ بنانے اور میرے ہی لاڑکانہ کی بجلی بند کرنے کا وقت کیسے ہے؟ آج لاکھوں عوام میری ہی طرح اپنے پیاروں کے کیسز کے فیصلوں کا انتظار کررہی ہے۔ آپ کا کام انصاف دینا ہے یا حکومت کرنا؟ ۔ آپ جو چہروں کی پہچان کا دعوہ کرتے ہوں۔ آپ کو راولپنڈی کی سڑکوں پر بے نظیر بھٹو شہید کے خون کی سرخی کیوں نظر نہیں آتی؟
آپ جو اس ملک کے ایک ایک فرد کو انصاف دینے کے ذمہ دار ہو آپ کے کانوں تک پیپلز پارٹی کے ان ہزاروں ورکرز کی آواز کیوں نہیں جاتی ۔ آپ منصب ہو تو انصاف کرو ۔اور یاد رکھنا صبر کے پیمانے بھر چکے ہیں۔ رگوں میں خون کھل رہا ہے۔ مگر ہم خاموش ہیں۔ ہم اس لئے خاموش ہیں ہم نظام قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ ہم اس ملک کے ہر شہری کوسستا اور فوری انصاف دینا چاہتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ جس سوسائٹی میں انصااف نہیں ہوتا وہ سوسائٹی قانون کا احترام کرنا چھوڑ دیتی ہے۔ وہاں طالبان جیسی غیر جمہوری طاقتیں راج کرتی ہے۔ اور انتقام کی آگ ایسے جھالا دیتی ہے۔ آپ میر ے ملک کے قاضی ہو، اس ملک کی رانی ،اس ملک کی بیٹی ،اس ملک کی شان، اس ملک کی آن، اس ملک کی پہچان، ہماری شہید بی بی ان سڑکوں پر ہم سے چھین لی گئی تھی۔ JITاپنی رپورٹ دے چکی ہے۔ UNITED NATIONکی رپورٹ آچکی ہے۔ میں پوچھتا ہوں اب کس چیز کا انتظار ہے؟۔ میں شہید ذولفقار علی بھٹو کا وارث، میں شہید بے نظیر بھٹو کا بیٹا ۔۔آپ سے پوچھتا ہوں میر ے ماں کے قاتل جو گرفتار ہیں انہیں سزا کیوں نہیں دیتے؟۔ آ پ کے پاس میری ماں کے قاتلوں کو سزا دینا کا وقت نہیں ہیں۔ مگر ان کی قبر کا ٹرائل کرنے کا وقت کیسے ہے؟۔
ساتھیو! بات راستے کی ہو رہی تھی۔ ایک طرف ہمار ا راستہ ہے۔ جو مساوات اور برابری کا راستہ ہے۔ اس لئے ہمارے نظر میں ہر مذہب ، ہر طبقے ، ہر زبان ہرذات اور ہر صوبے کا مقام برابر ہے۔ ہم نے تاریخ میں پہلی بارصوبوں کو مرکز سے زیادہ حقوق دیا ہے۔ ایک راستہ ہمارا ہے اور دوسرا راستہ ان لوگوں کا ہے جن کی نظر میں پاکستان صرف جی ٹی روڑ پر بستہ ہے اور انسان صرف ادھر ہی رہتے ہیں۔
میرے ساتھیو! جان دینا آسان نہیں ہوتا۔ ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے قدم قدم پر شہادتیں دی ہیں اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو ہمارے شہیدوں کی تو ہین کرتے ہیں اور اس لئے کرتے ہیں کہ کوئی ان کی بزدلی کا راستہ نہ جان لے۔ کوئی ان کے بھاگ جانے پر سوال نہ پوچھ لے۔ کوئی یہ نہ پوچھ لیں جس ورکرنے آپ کو زمین سے اٹھاکر آسمان پر پہنچا وہ آپ نے اس کے لیے کتنی قربانیاں دی ۔ ہم تو اس ملک کی ہر پارٹی کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں۔ Reconciliationہمارا سب بڑا ہتھیار ہے۔ ہم مل کر اتحاد کی طاقت سے اس ملک کی تعمیر کرناچاہتے ہیں۔ مگر کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کے لبوں پر بے ہودہ الفاظ ہیں۔ ان کی سیاست صرف نفرت کی سیاست ہے۔ اور وہ سمجھتے ہیں کہ نفرت کی آگ میں اس وطن کوجلا کر وہ اقتدار کی منزل تک پہنچ جائینگے ۔مگر انہیں معلوم نہیں کہ سیاست نفرتوں کا نہیں محبتوں کا نام ہے۔ یہاں مخالیفوں سے بھی ہاتھ ملانا پڑتاہے۔ ہم انہیں پھر دعوت دیتے ہیں کہ آؤ ہم محبت کے سفیر ہیں۔۔۔ آؤ ہمارے ساتھ چلو۔ ۔۔
ہم ہواؤں رخ بدلینگے ۔
ساتھیو!یاد کرو جب صدر پاکستان جناب آصف علی زرداری نے پارٹی کے کو چیئر پرسن بن کر اپنے پہلے جلسے میں کہا تھا کہ وہ نظام بدلنا چاہتے ہیں ۔آج ان کے الفاظ حقیقت بن رہے ہیں۔ نظام بدل رہا ہے۔ پرانے برج الجھ رہے ہیں۔ تخت گرائے جارہے ہیں ۔ تاج اچھالے جارہے ہیں۔اس لئے تو اتنا اپوزیشن ہیں۔ اس لئے تو اتنا شور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آمریت کی پیداوار ڈکٹیٹروں کی گود میں پالنے والے ہمارے مخالف بن چکے ہیں۔
جن پتھروں کو ہم نے زبان دی 
آج وہ م یہ برستے ہیں
آج وہ ہم پر یہ برستے لگاتے ہیں۔آج وہ ہم پر الزام لگاتے ہیں۔ میں پوچھنا چاہتاہوں جمہوریت کے ان دعوے داروں سے کہ آپ کو ایوان صدر میں بیٹھنے والے جنرل ضیاء کی وردی تو نظر نہیں آئی۔ جنرل مشرف کی وردی تو نظر نہیں آئی ۔ مگر جب ایکCivilian President ، ایک جمہوری صدر، ایک عوامی صدر، ایوان صدر میں عوام کا نمائندہ بنا تو اس کی پیپلز پارٹی کاجھنڈا پانچ سال کے بعد ایسا کیوں نظر آیاکہ آپ کی راتوں کی نیند بھی اڑگئی ۔ یہ وہ ہی جمہوریت کے د عوے دار ہیں جو ایجنسیوں کی مدد سے بی بی شہید کا راستہ روکنا چاہتے تھے کہ آج ا صغر خان کیس کے بعد وہ کہا ں ہیں۔ پہلے و ہ ڈکٹیٹر کی مد د سے ہمیں وہ روکتے تھے۔ پھر ا نہوں نے 582bکا سہارا لیا۔ اور کبھی ایجنسیز کو ہمارے خلاف استعمال کیا گیا۔مگر افسوس آج بھی انہوں نے سبق نہیں سیکھااور اس دفعہ انہوں نے نئے کھلاڑی ایجاد کردیئے ہیں۔ آج بھی وہ جمہوریت کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ کبھی وہ میمو گیٹ کا سہارا لیتے ہیں۔ کبھی وہ ہمارے ہیINSTITUTIONS کو ہمارے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ 
آج بھی وہ ایک پھرجمہوریت کو تبا ہ کرنے پر تلے ہیں۔ مگر ہم اب یہ نہیں ہونے دینگے ۔ انہیں بتا دو کہ یہ قافلہ نہیں روکے گا ۔ آپ ہمارے پیروں میں زنجیرڈال دوگے مگر ہم اپنی منزل پر پہنچے نگے۔ آپ ہمارے ہاتھ کاٹ دوگے مگر ہمارا پرچم بلند رہے گا ۔ آپ ہمارے لب سی دو گے مگر جئے بھٹوکے نعرہ کبھی ختم نہیں ہونگے۔ میری رگوں میں بے نظیر بھٹوکا خون ہے۔ میں آج شہید بی بی کو گواہ بنا کر آپ سے عدہ کرتا ہوں کہ پیپلز پارٹی کبھی کسی ڈکٹیٹرکو عوام کا حق چھینے نہیں دے گی ۔ میری پیپلز پارٹی کبھی کسی دہشت گرد سے خوف ذدہ نہیں ہوگی۔ 
یا د کرو جب صدر پاکستان کی پہلی تقریر کے وقت پوری پارلیمنٹ کو ہارانے کوشش کی گئی ہم تب بھی نہ گھبرائے ۔ جب ہمارے GHQپر حملہ ہوا ہم تب بھی نہ گھبرائے جب میر ے شہباز بھٹی کو ہم سے چھین لیا گیا۔ ہم اس وقت بھی نہ گھبرائے ۔ جب میرے ہی شیر پنجاب سے ہم کو چھین لیا گیا ہم تب بھی نہ گھبرائے جب ہماری ہی بی بی کو شہید کردیا گیا ہم نے تو اس وقت بھی پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا ، ہمیں تو کوئی نہ ڈرا سکا ۔ کل بھی ہم تھے۔ اور آج بھی ہیں اور آئندہ بھی ہم ہی ہونگے ۔
ہم وقت کے سینے میں ڈھرکتاہوا دل ہیں۔۔
ہم پاکستان کی رگوں میں دوڑتا ہوا لہو ہیں ۔۔
ہم قائد عوام کے جیالے ہیں۔ ۔
ہم بی بی شہید کے دیوانے ہیں۔۔
یاد رکھناپیپلز پارٹی صرف سیاسی پارٹی نہیں ۔ یہ ہماری زندگی ہے شہید بی بی آج بھی آپ کے درمیان زندہ ہے۔ وہ آپ کے جذبوں کو دیکھ رہی ہے۔ وہ آپ کے جوش سے واقف ہے اور آپ کو پکار پکار کر بول رہی ے۔ 
بول کہ لب آزاد ہے تیرے ۔۔۔۔بول زبان اب تک تیری ہے۔
تیراستونج جسم ہے تیرا بول کہ جان اب تک تیری ہے۔
بول کہ تھوڑا وقت بہت ہے جسم اور زبان کی موت سے پہلے 
بول کہ سچ زندہ ہے اب تک بول جو کچھ کہنا ہے کہہ دے
آج بی بی شہید آپ کو سن رہی ہے۔ بی بی شہید کو آپ کے نعروں کی آواز آرہی ے۔ آج بی بی شہید آپ کے درمیان زندہ ہے۔


بی بی کے قاتل شرمندہ ہے۔ بی بی آج بھی زندہ ہے۔
بی بی کے قاتل شرمندہ ہے۔ بی بی آج بھی زندہ ہے۔
بی بی کے قاتل شرمندہ ہے۔ بی بی آج بھی زندہ ہے۔
بی بی کے قاتل شرمندہ ہے۔ بی بی آج بھی زندہ ہے۔
بی بی کے جیالوں ،
بی بی کی آصفہ کے جیالوں،
بی بی کی بختاور کے جیالوں ،
بی بی کے بلاول کے جیالوں اور بی بی کے دل کا ٹکڑا صدر پاکستان آصف علی زرداری کے جیالوں،

آؤ ہم سب ملکر ہماری بی بی ۔۔۔میری ماماکے لیے نعرہ لگائیں۔
نعرہ نعرہ نعرہ بھٹو
جئے جئے جئے بھٹو
نعرہ نعرہ نعرہ بھٹو
جئے جئے جئے بھٹو۔۔۔۔جئے بھٹو بے نظیر
نعرہ نعرہ نعرہ بھٹو۔۔۔۔جئے بھٹو بے نظیر
نعرہ نعرہ نعرہ بھٹو
جئے جئے جئے بھٹو ۔۔۔۔۔۔جئے بھٹو بے نظیر
نعرہ نعرہ نعرہ بھٹو
جئے جئے جئے بھٹو ۔۔۔۔۔۔جئے بھٹو بے نظیر
زندہ ہے بی بی۔۔۔۔زندہ ہے
زندہ ہے بی بی۔۔۔۔زندہ ہے
زندہ ہے بی بی۔۔۔۔زندہ ہے
زندہ ہے بی بی۔۔۔۔زندہ ہے
زندہ ہے بی بی۔۔۔۔زندہ ہے
زندہ ہے بی بی۔۔۔۔زندہ ہے
زندہ ہے بی بی۔۔۔۔زندہ ہے
یا اللہ یا رسول۔۔۔۔۔۔۔۔ بے نظیر بے قصور

4 comments:

  1. well done bilawal bhutto zardari

    ReplyDelete
  2. Dekho Dekho aya bilawal bhutto zardari

    ReplyDelete
  3. Bibi ka Tara Bilawal...

    ReplyDelete
  4. marvellous speech by bilawal bhutto zardari, he looked rock.

    ReplyDelete