Monday 10 December 2012

بیادِ بے نظیر (بے نظیر بھٹوکا ویژن ، قومی مفاہمت اور امن)

وفاقی وزیر اطلاعات اور پیپلز پارٹی کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات قمر الزماں کائرہ نے کہا ہے کہ ہم اس ملک میں سیاسی صدور چاہتے ہیں ،سازشی صدور نہیں چاہتے کیونکہ اس ملک کو ایک سیاسی صدر نے بنایا ہے۔ پاکستان کے مفاد کے لئے ہمیں نفرتوں کی سیاست کا اس ملک سے خاتمہ کرنا ہوگا۔ کوئی ایک جماعت اس ملک کے مسئلے حل نہیں کرسکتی اس لئے تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر اس ملک سے مسائل کا خاتمہ کرنا ہوگا، ہم پر چارٹرڈ آف ڈیموکریسی پر دستخط کرکے مکر جانے کے الزامات دینے والے آج پنجاب میں اسی سی او ڈی کی مخالفت کرکے قائم کئے ہوئے ہیں اور وہاں دیگر سیاسی جماعتوں کے لوگوں کی وفاداریاں تبدیل کی گئی۔نواز شریف کو سیاست سے الگ کرنے کا نہیں سوچ سکتے، عدلیہ کا ذوالفقار علی بھٹو سے لیکر آج تک پیپلز پارٹی کے ساتھ رویہ رہا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیپلز یوتھ آرگنائیزیشن ،کراچی ڈویژن کے تحت مقامی ہوٹل میں "بیاد بے نظیر" بے نظیر بھٹو کا ویژن، قومی مفاہمت اور امن کے عنوان سے منعقدہ سیمینارسے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر وفاقی وزیر نے پیپلز یوتھ کراچی کی ویب سائیڈ کا بھی افتتاح کیا اور بے نظیر بھٹو کے حوالے سے بنائی ڈوکومیٹری کا بھی افتتاح کیا۔ سیمینار سے پیپلز پارٹی کراچی ڈویژن کے صدر و رکن قومی اسمبلی عبدالقادر پٹیل، متحدہ قومی موومنٹ کے رہنماء حیدر عباس رضوی ، پیپلز یوتھ کراچی کے صدر رؤف احمد ناگوری، حسین نقی، اصغر ندیم سید، سنئیر صحافی نظیر لغاری، وجاہت مسرور، نجمی عالم، غلام شہباز بٹ اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔ تقریب میں پروفیسر این ڈی خان،مرزا اختیار بیگ، سندھ کے وزیر ساجد جوکھیو، لطیف مغل، رکن سندھ اسمبلی فرزانہ بلوچ، نسرین چانڈیو، اسلم سموں، سہیل عابدی، رزاق راجہ، قاسم بلوچ اور دیگر بھی موجود تھے۔قمر زمان کائرہ نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج کے اس سیمینار کو موضوع ملکی تاریخ کے لئے اہم موضوع ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں آمریت کے کندھوں پر حکومت میں آنے والوں اور عوامی ووٹوں سے آنے والے دو علیحدہ علیحدہ رویوں کے حامل لوگ تھے۔ انہوں نے کہا کہ یہی وجہ تھی کہ آج تک جتنی حکومتیں آئیں ان میں اقتدار میں آنے والی جماعتیں اپوزیشن کی جماعتوں پر یہ ملک تنگ کردیا کرتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ چارٹرڈ آف ڈیموکریسی پر دستخط کرکے شہید بے نظیر بھٹو نے اس ملک سے نفرت کی سیاست کا خاتمہ کیا اور تمام تر صعوبتیں برداشت کرنے کے باوجود انہوں نے میاں نواز شریف کی جانب مفاہمت کا ہاتھ بڑھایا اور لندن میں چارٹرڈ اور ڈیموکریسی پر دستخط کئے گئے۔ انہوں نے کہا کہ اس پر پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو شدید تحفظات تھے تاہم محترمہ نے درس دیا کہ ہمارے تحفظات اس ملک کی بقاء و سالمیت سے بڑھ کر نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج بھی ہمارے اتحاد میں شامل جماعتوں کے ساتھ ماضی بہت تلخ رہا ہے لیکن ہم نے تمام تلخیاں بی بی کے وژن پر بھلا دی ہیں اور اسی نظریہ پر چل کر ہم اس ملک کو تلخیوں کی سیاست سے آزاد کرا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نفرتوں کو بڑھانے میں بہت کم وقت لگتا ہے لیکن اسے کم کرنے میں بہت وقت لگ جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بی بی کی شہادت کے بعد بھی حالات بہت تلخ ہوگئے تھے لیکن پارٹی کے شریک چیئرمین نے محترمہ کے وژن پر کارفرما ہوکر تلخیوں کا خاتمہ کیا اور مفاہمت کہ سیاست کا آغاز کیا۔ انہوں نے کہا کہ آصف زرداری نے بی بی کی شہادت کے بعد تمام سیاستدانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا شروع کیا اور اس پر ہمیں کئی الزامات کا سامنا آج بھی کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف کو اگر ہم طاقت اور تلخیوں کے ذریعے ہٹاتے تو آج بھی اس ملک میں جمہوریت نہیں آتی اور یہ بات ہی کچھ لوگوں کو اچھی نہیں لگ رہی۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں سی او ڈی پر دستخط کرکے مکر جانے کے الزامات دینے والے آج پنجاب میں اسی سی او ڈی کی مخالفت کرکے قائم کی گئی اور آج تک قائم ہے اور وہاں دیگر سیاسی جماعتوں کے لوگوں کی وفاداریاں تبدیل کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس وقت بھی پنجاب کی حکومت کو گرا سکتے تھے لیکن آصف علی زرداری نے پھر محترمہ کی جمہوریت کی وژن پر اپنا سیاسی نقصان ضرور کیا لیکن مفاہمتی سیاست کا قتل نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ عدلیہ کے ساتھ بھٹو سے لیکر آج تک ایک خاص فضا رہی ہے۔ عدالت کے ساتھ ہماری کبھی نہیں بن پائی۔ انہوں نے کہا کہ ہم ہی عدالتوں کے ہاتھوں قتل ہوتے ہیں اور ہم انہی عدالتوں کا ہم عزت کرتے ہیں۔انہی عدالتوں نے ہماری حکومتیں گرائی، ہمارے منتخب وزیر اعظم کو گھر بھیجا لیکن ہم نے ان کی عزت کی ہے۔ کائرہ نے کہا کہ تصادم کا خاتمہ ہی اس ملک کو بچانے کی سیاست کا حقیقی نظریہ ہے اور اس پر ہم عمل پیرا ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بی بی شہید کے مفاہمتی سیاست کے نظریہ کے باعث ہی ہم نے آج 5 سال پورے کئے ہیں اور ایک شفاف انتخابات کی راہ ہموار کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج ہمیں یہ طعنہ دیا جارہا ہے کہ پیپلز پارٹی آنے والے انتخابات میں عوام کے پاس کیا لیجائے گی تو ہم انہیں بتانا چاہتے ہیں کہ ہمیں 2008 میں جو پاکستان ملا تھا اسے 2013 میں ہم نے کیا بنایا اس کا ہم جواب دینے کے ذمہ دار ہیں 1947 سے آج تک کے پاکستان کے ہم ذمہ دار نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 2008 میں پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ دہشتگردی تھا اسے نہیں بھولنا چائیے۔ انہوں نے کہا کہ 2008 میں مالاکنڈ تک طالبان آگئے تھے اور 10 روز میں اسلام آباد پر قبضہ کی آواز دی جارہی تھی، ہر سہر میں روزانہ بموں کے دھماکہ ہوتے تھے، روزانہ کئی کئی شہادتیں ہوتی تھی اور ہماری افواج کے جنازے ہم رات کی تاریکیوں میں پڑھانے پر مجبور تھے ہمیں ایسا پاکستان 2008 میں ملا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اسی سال میں سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کی حکومتیں جو ہماری حکومتیں تھی لیکن وہ این ایف سی ایوارڈ پر وفاق کے ساتھ بھی بیٹھنے کو تیار نہیں تھی۔ پہلے سال ہم نے 25 لاکھ ٹن گندم باہر سے منگوائی۔ 2008 میں جب ہمیں یہ ملک ملا تو عالمی بحران آتا ہے اور اس کا بھی ہم مقابلہ کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج پاکستان فوڈ کے معاملہ میں خود کفیل ہے بلکہ ہم لاکھوں ٹن خوراک بیروب ملک بھیجنے کے قابل ہوئے ہیں۔ آج اسٹاک مارکیٹ تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے اور یہ تیزی بیرون سرمایہ کاری سے نہیں بلکہ ہماری کمپنیوں کی شئیر ہولڈرز کو منافع دینے کے باعث ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں معیشت مستحکم ہوتی تھی تب بھی اسٹاک مارکیٹ بیرونی طاقت کی وجہ سے نیچے ہوجاتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ کالا باغ ڈیم ہو یا صدر کے دو عہدے یہ سیاسی معاملات ہیں ان کو پارلیمنٹ میں رہنے دیں یہ عدالتی ایشو نہیں ہیں۔ ہم عدلیہ کا احترام کرتے ہیں لیکن عدالتوں کو بھی اپنا احترام کرانے کے لئے اپنے فیصلوں پر نظرثانی کرنی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ صدر نے اپنے تمام اختیارات وزیر اعظم کو دے دیا ہے تو اب لوگوں کو ایوان صدر سے کیوں خوف ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں ڈاکہ ایوان صدر سے پڑتے آئے تھے لیکن ہم نے تو آکر صدر کے اختیارات کو ہی وزیر اعظم کو سونپ دیا۔ انہوں نے کہا کہ آصف زرداری 2008 میں وزیر اعظم بن سکتے تھے لیکن وہ اس ایوان صدر کو جو ہمیشہ جہموریت کے لئے سازش کا منبیہ بنا رہا اس کو سنبھالا اور اس ایوان صدر سے جمہوریت کے خلاف سازشوں سے نجات دلائی۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے خلاف متعدد عدالتی کمیشن بنائے گئے اور ہمیں کرپٹ قراد دینے کی سازشیں کی گئی لیکن کوئی یہ تو بتائے کہ ان کمیشنز سے کیا نکلا۔ انہوں نے کہا کہ ایل پی جی معاہدہ، رینٹل پاور معایدہ سمیت متعدد میں کرپشن کا الزام عائد کیا گیا لیکن کسی میں کوئی کرپشن کمیشنز ثابت نہیں کرسکا بلکہ اس سے اس ملک کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا گیا اور عوام کو گیس اور بجلی کے بحران میں مبتلا کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے کرپشن میں پاکستان کے نمبر 33 پر آنے کا طعنہ دیا جاتا ہے۔ شہباز شریف کے اپنے بھائی کے دور میں جب وہ وزیر اعظم تھا پاکستان کرپشن میں دوسرے نمبر پر تھا وہ کس منہ سے ہمیں طعنہ دے رہا ہے۔ پاکستان کے تیز ترین ارب پتی ہمیں یہ تو بتائے کہ ان کے پاس کیا کلیہ ہے کہ وہ اس رفتار سے روپے کہاں سے لائے۔انہوں نے کہا کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے کوئی ٹھوس شواہد نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ روزانہ 7 ارب کی کرپشن کا الزام عائد کرنے والوں کو یہی نہیں معلوم کہ ہمارے گذشتہ 5 برس کا بجٹ بھی 25 کھرپ کا نہپیں تو ہم نے ساڑھے 25 کھرب کا کیسے کرپشن کیا۔ قمر الزماں کائرہ نے کہا کہ ہم نے احتساب کے لئے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمیں کا عہدہ اپوزیشن لیڈر کو دے کر اپنے آپ کو احتساب کے لئے پیش کیا ہے اور آج وہ کمیٹی ایوان صدر، ایوان وزیر اعظم سب کو نوٹس بھجوا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اصغر خان کیس نے کئی معملات سے پردہ اٹھایا ہے اور کئی معاملات سے پردہ اٹھنا باقی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی صدور چاہتے ہیں سازشی صدور نہیں چاہتے کیونکہ اس ملک کو ایک سیاسی صدر نے بنایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں آج جہموریت اسی سیاسی صدر کے باعث ہے۔ پاکستان کے مفاد کے لئے ہمیں نفرتوں کی سیاست کا اس ملک سے خاتمہ کرنا ہوگا۔ کوئی ایک جماعت اس ملک کے مسئلے حل نہیں کرسکتی اس لئے تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر اس ملک سے مسائل کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کراچی ڈویژن کے صدر اور رکن قومی اسمبلی عبدالقادر پٹیل نے کہا کہ آج کا یہ سیمینار کسی بڑے جلسہ سے زائد سود مند ثابت ہوا ہے اور اس طرح کے انعقاد سے ہم عوام کو اس ملک کے حقیقی معاملات سے آگاہ کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے محترمہ بے نظیر سے یہی سیکھا ہے کہ سیاسی قوتوں کو ملا کر ہی اس جمہوریت کے خلاف نہ نظر آنے والی قوتوں کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بی بی نے ہمیں سکھایا کہ اختلاف دشمنی نہیں ہوتا، ہم کم عقل لوگ اختلاف کو دشمنی بنا دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے محترمہ کے وژن ایک مضبوط پاکستان کے لئے جمہوریت لازم کو اپنایا ہے اور اس پر ہی عمل پیرا ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ گذشتہ دو نسلیں پارٹی قیادت کو نہیں سنبھال سکیں لیکن آج ہم پیپلز یوتھ اور پی ایس ایف کو 27 دسمبر کو نیا چیئرمین سونپ رہے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ اب یوتھ اس کو سنبھال لے گی۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے متحدہ قومی موومنٹ کے رہنماء و سابق رکن قومی اسمبلی اور وزیر اعلیٰ سندھ کے معاون خصوصی حیدر عباس رضوی نے کہا کہ میری پیدائش اور پروروش پیپلز پارٹی کے سپوٹرز کے گھر میں ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی موجودہ سیاست اور آنے والے برسوں میں بھی پورے ملک میں کوئی ایسی جماعت نہیں ہے جو اس ملک میں مکمل کامیاب ہوسکے۔ اس لئے کوئی بھی سیاسی جماعت اقتدار میں آئے گی اسے سیاسی مفاہمت اور اتحادی چننے ہونگے۔ انہوں نے کہا کہ متحدہ قومی موومنٹ اور پیپلز پارٹی کے اتحادی تعلقات آصف زرداری کے حوالے سے صرف نہیں ہیں بلکہ شہید بے نظیر بھٹو پاکستان آنے سے قبل اور پاکستان آنے کے بعد بھی مسلسل ایم کیو ایم سے رابطے میں تھی۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ 5 برس میں انتہاہی مشکلات کے باوجود ہم نے محترمہ کے خواب کو پرا کرنے میں مصروف ہیں اور اسے ہمیں آگے بھی لیکر چلنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ بہت سے ایسے بیرونی اور اندرونی عناصرپیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی مفاہمت کو ثبوتاژ کریں لیکن ہماری ذمہ داری ہے کہ ایسے عناصر کو ان کی سازشوں میں کامیاب نہ ہونے دیں۔ انہوں نے کہا کہ بہت سارے لوگوں کو ہمارا اتحاد چھبتا ہے اور وہ کوشش کررہے کہ وہ اس اتحاد کو توڑ دیں۔ اس لئے ایسی صورتحال میں ہم سب کو قدم بھونک بھونک کر رکھنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ لاش لیاری کی ہو یا لیاقت آباد کی ہو وہ لاش ہماری ہے۔ یہ قتل شہید محترمہ اور الطاف حسین کے خواب کا قتل ہے۔ ہمیں پاکستان کے بہتر مستقبل اور محترمہ کے خواب کی تعبیر کے لئے ماضی کی غلطیوں کو بھلا کر آگے بڑھنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے بہتر مستقبل کے لئے ہمیں ایک ساتھ چلنے ہونگے اور بہت سے محاورے غلط کرنے پڑیں گے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ کی میان میں دو تلواریں اب رہیں گی اور اسے ہم مل کر رکھیں گے۔ ہمیں اس شہر، صوبے اور ملک کو ساتھ آگے لیکر چلنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ مفاہمت کا مطلب حکومت بنانا نہیں بلکہ سب کو ساتھ لیکر چلنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ بہت سے سیاسی پنڈت بڑی بڑی شیروانیاں سلوا کر خواب دیکھ رہے ہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ ہماری سیاسی مفاہمت سے آئندہ 5 برس بھی ہم حکومت بنائیں کیونکہ اس سے ان کے خواب چکنا چور ہوجائیں گے۔ معروف ڈرامہ نگار اصغر ندیم سید نے کہا کہ بی بی کے وژن پر چلنا آسان نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس نے امن اور جمہوریت کی خاطر پیپلز پارٹی نے جانوں کے نذرانے دئیے۔ انہوں نے کہا کہ بھٹو کا دور انقلابی تبدیلیوں کا دور دیا اور اس میں انہوں نے جو وژن دیا وہ قابل ستائش ہے۔ انہوں نے کہ اسی وژن نے آج پاکستان کو لبرل اور فلاحی معاشرہ کا رنگ دیا۔ انہوں نے کہا کہ بھٹو نے تعلیمی سطح پر استادوں کو ذوالفقار علی بھٹو نے عزت دی۔ انہوں نے کہا کہ بینظیر بھٹو نے بھی اپنے والد سے تربیت حاصل کی۔ انہوں نے کہا کہ ایک سازش کے تحت نائین الیون کے بعد عوام کو تقسیم کیا گیا اس کی وجہ اس ملک میں جمہوریت کا نہ ہونا تھا۔ انہوں نے کہا کمہ پیپلز پارٹی کے اکابرین کو اب پنجاب کے حوالے سے بھی سوچنا ہوگا کیونکہ پنجاب اس وقت بے حال ہے۔اس وقت پیپلز پارٹی پورے ملک کی جماعت ہے اور بلوچستان کا مسئلہ عوامی بصیرت سے حل کیا جاسکتا ہے۔ سنئیر صحافی نذیر لغاری نے کہا کہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ بے نظیر کی آمد کے موقع پر حکومت کی جانب سے مختلف خدشات کا اظہار تو کیا گیا تھا لیکن اس کے سدباب کے لئے کس قسم کے انتظامات کئے گئے ہیں اس حوالے سے کوئی آگاہی نہیں تھی۔ انہوں نے کہا کہ صنم بھٹو نے کھلے عام کہا ہے کہ میر بہن کو انہی لوگوں نے مارا ہے جس نے میرے باپ اور بھائیوں کو مارا تھا اور اب یہ مسئلہ پیپلز پارٹی کی قیادت کو حل کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ بے نظیر کی شہادت اور ذوالفقار بھٹو، مرتضیٰ بھٹو اور شاہنواز بھٹو کو قتل کیا انہیں اب کٹہرے میں لانا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ تاریخ کے کٹہرے میں ان ملزمان کو لانا ہوگا اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو تاریخ آپ کی خاموشی کو بھی پیش کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ بے نظیر بھٹو پاکستان کی روح کو سمجھنے والی شخصیت تھی اور اس کے دل میں اس ملک کے عوام کی تڑپ تھی اسی لئے ہو پاکستان آئی لیکن اسے ہم سے انہیں چھین لیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ مفاہمت کی سیاست ضرور ہونی چائیے لیکن ایسی مفاہمت نہ کی جائے جس میں عوام کی جان و مال کی حفاظت نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ آج پیپلز پارٹی حکومت میں ہے اور انب کے سینکڑوں کارکنان شہید اور ہزاروں کارکنان چھپتے پھر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسی حکومت میں یہ پارٹی کیوں بیٹھی ہے۔ اگر حکومت میں بیٹھنا ہے تو پھر اب اس عوام کے لئے سوچنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ محترمہ کی پارٹی میں نوکریوں کی اتنے بڑے پیمانہ پر خرید و فروخت ہوگا یہ کبھی نہیں ہم نے سوچا تھا۔ غلام شہباز بٹ نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بے نظیر بھٹو کا وژن پاکستان میں اپنے لہو سے جنم دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج یہ خطہ صرف اور صرف پاکستان کی سالمیت سے مشروط ہے اور پاکستان کی سالمیت محترمہ کے وژن کو اپنا کر ہی کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی مفاہمت پروان نہ چڑھی تو پاکستان کا مفاد خطرے میں پڑ جائے گا اور یہ خطہ غیر مستحکم ہوجائے گا اور دنیا بھر میں اس کی تباہی آئے گی۔ پیپلز پارٹی کے کارکنان امن کے لئے آمریت کے خلاف جنگ لڑنا جانتے ہیں اور اگر کوئی اور آمریت جمہوریت کے خلاف آئی تو اس کے خلاف بھی پیپلز پارٹی کا کارکن آج بھی جنگ لڑنے کو تیار ہے۔ وجاہت مسعود نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں اور کارکنان پاکستان کے لئے سرمایہ ہیں اور پیپلز پارٹی اور ان کے کارکنان کا ایک بہت بڑا کردار اس ملک میں جمہوریت کی بحالی کے لئے ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (اپچ آر سی پی)کے ڈائیریکٹر حسین نقی نے کہا کہ شہید ذوالفقار بھٹو سے زیادہ سیاسی تحریک سے گزری وہ محترمہ بے نظیر بھٹو تھی۔ انہوں نے کہاکہ بے نظیر بھٹو اپنی زمانہ طالبعلمی میں ہی سیاسی سفر کا آغاز کردیا تھا اور قید وبند اور ملک بدری کی صہوبتیں برداشت کیں۔ انہوں نے کہا کہ بے نظیر اپنے خاندان کی چوتھی شہید تھی یہ بات اس قوم کے نوجوانوں کو غور سے سمجھنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ان تمام کے پس پشت وہ عناصر تھے جو اس ملک میں روشن خیالی کے مخالف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مذہب کو سیاست کے لئے استعمال کرنا ناکامی کے مترادف ہے۔

3 comments: